It can take up to an hour for ads to appear on the page. See our code implementation guide for more details. If you already have Auto ad code on your pages, there's no need to replace it with this code لاہور کتنا بدل گیا ہے۔ Skip to main content

Building Rules in Lahore

  Their importance in Pakistan is no more than scrap paper.      Every other day in Pakistan one or the other building accident happens. Even if the roof collapses due to light rain, the trapped people get burnt to coal as a result of fire. Most of the buildings have cracks due to the earthquake. Such a situation is not seen in the civilized world. If we compare, there is no doubt that building code and bye are also required in Pakistan but it is also true that most of the laws are thrown in the Kurdish basket.  Government officials sell their faith in the lure of money and against the law and buildings are erected on the basis of greed which is putting the lives of hundreds of people at stake.      Strict building regulations are in place around the world.  Prior to laying the foundation of the building, several permits are required, including the nature and location of the site.      No one is qualified to build a building on...

لاہور کتنا بدل گیا ہے۔


بلاشبہ لاہور ایک ایسا شہر ہے جہاں دیکھنے اور کھانے کو اتنا کچھ ہے کہ آپ سوچ نہیں سکتے بس جیب بہت بھاری ہونی چاہیے ۔ اتوار اور چھٹی والے دن تگڑا ناشتہ اور دوپہر و شام کے مزیدار کھانے آپ کے منتظر ہوتے ہیں ، جی ہاں ، حلوہ پوری، نان چھولے، بونگ پائے، سری پائے ،نہاری، دہی کی لسی، مرغ چنے، چکڑ چھولے ، حلیم نان، چنے انڈہ، بریانی،کڑاہی گوشت، بار بی کیو کے ساتھ ساتھ فاسٹ فوڈ بھی مل سکتا ہے، لاہور میں کسی بھی طرف نکل جائیں یہ سب سوغاتیں آپ کو مل جائیں گی لیکن اگر ساتھ تفریح بھی کرنی ہے تو پھر لذیذ کھانوں کے مخصوص مقامات پر چلے جائیں ، جیسا کہ لکشمی چوک، ایم ایم عالم روڈ گلبرگ، اندرون لاہور بھاٹی گیٹ، فوڈ سٹریٹ گوالمنڈی، پرانی انار کلی، بیڈن روڈ ، یہ سبھی کھانوں کے مشہور مرکز ہیں جہاں کھانوں کی بھینی بھینی خوشبو اور مہک ہر طرف پھیلی ہوتی ہے ۔ دیکھنے کو ہر طرح کی عمارتیں اور تاریخی مقامات اس قدر لاہور میں ہیں کہ ان کو دیکھنے کے لئے کئی دن درکار ہیں ان میں قدیم، تاریخی اور جدید مقامات اور عمارتیں شامل ہیں ، ایک حسین مرقع اور امتزاج ہے ۔ ان میں شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد،عجائب گھر، مینار پاکستان ،شالامار باغ، نور جہان کا مقبرہ وغیرہ اور مال روڈ پر واقع دیگر اہم تاریخی عمارتیں شامل ہیں۔ خوبصورت پارکوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ اورنج ٹرین کے اجراء نے لاہور کو مکمل طور پر بدل ڈالا ہے، جدید لاہور نے پرانے لاہور کو نگل لیا ہے۔ اندرون لاہور کی حالت زار یقیناً مؤرخین اور تاریخ دانوں کو دعوتِ فکر دیتی ہے۔ کبھی مال روڈ سمیت لاہور کی سڑکوں پر تانگوں کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں سننے کو ملا کرتی تھیں اور اکّا دکّا موٹر کار اور سائیکل سوار نظر آیا کرتا تھا ، ایک وقت تھا کہ لاہور کی سڑکوں کی دلکشی ڈبل ڈیکر بسیں ہوا کرتی تھیں لیکن اب یہ مناظر پرانی تصاویر میں ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں لاہور ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے، اور آج گاڑیوں کے ہارنوں اور انجنوں کے شور نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے ۔ اب یہاں اوور برج، انڈر پاسوں اور فلائی اووروں کی بہتات ہو چکی ہے ۔ اوپر نیچے، دائیں ، بائیں ہر طرف ٹریفک ہی ٹریفک دکھائی دیتی ہے ۔ موٹر سائیکلوں ، چمکتی قیمتی کاروں اور دیگر ٹرانسپورٹ کا رش سڑکوں پر ہر وقت دکھائی دیتا ہے ،لاہور پاکستان کا دوسرا اور دنیا کا اٹھارواں بڑا شہر ہے۔ یہ شہر زندہ دلان لاہور کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کو ’’کالجوں کا شہر‘‘، ’’پھولوں کا شہر‘‘، ’’پارکوں کا شہر‘‘، ’’داتا کی نگری‘‘ اور پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے۔ لاہور کے بارے میں کچھ کہاوتیں بھی مشہور ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ ’’ست دن تے اٹھ میلے، گھر جاواں کیہڑے ویلے‘‘ اور دوسری یہ کہ ’’جنے لاہور نہیں ویکھیا، او جمیا ای نئیں‘‘ دریائے راوی کے کنارے آباد ’’لاہور‘‘۔ نوجوان نسل اور اوورسیز شاید نہیں جانتے کہ آج کے لاہور کے اندر بھی ایک لاہور موجود ہے اور حقیقت میں وہی اصلی لاہور ہے ۔ اس اندرون لاہور کو ’’پرانا لاہور‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ اس گمنام شدہ پرانے لاہور کے آثار آج بھی موجود ہیں ، پرانی حویلیاں ، پرانے دروازے، پرانے گھر، پرانے وقتوں کی ایسی یادگاریں ہیں جن کو دیکھ کر انسان صدیوں سال پیچھے چلا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کے نام بھی ہر زمانہ میں بدلتے رہے ہیں ۔ تاریخ کی کتب میں جو نام درج ہیں ان میں لھور، لہانور، لوہاور، لوھور، لوھاوؤر، لاوھور، لا ھاور، لانہور، لھاوار شامل ہیں ۔ لاہور کے نام کی طرح اس کی تاریخ بھی بہت پرانی اور قدیم ہے صدیاں گزرجانے کے بعد بھی آج بھی اس کا شمار دنیا کے اہم شہروں میں ہوتا ہے ۔ 630 عیسوی میں چین کے ایک باشندے نے ہندوستان جاتے ہوئے لاہور کا ذکر اپنی تحریر میں کیا تھا ۔ یہیں سے اس شہر کے قدیم۔ ہونے کا پتہ چلتا ہے ۔ علامہ احمد بن یحیٰ بن جابر بلازی کی کتاب ’’فتوح البلدان‘‘ میں لاہور کا ذکر ملتا ہے جس میں 664 عیسوی کے اہم واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ لاہور شہر کی تاریخ کو اگر چند سطروں میں لکھا جائے تو کچھ یوں لکھا جائے گا ۔ تاریخ کی کتب کے مطابق رام کے بیٹے ’’لوہ‘‘ نے شہر لاہور کی بنیاد رکھی اور یہاں ایک قلعہ تعمیر کرایا، دسویں صدی تک یہ شہر ہندوؤں راجاؤں کے زیر تسلط رہا ۔ 11ویں صدی میں سلطان محمود غزنوی نے پنجاب فتح کیا تو ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا ۔ 1186 میں شہاب الدین غوری نے لاہور پر قبضہ کرلیا ۔ 1290 میں خلجی خاندان،1320 میں تغلق خاندان،1414 میں سید خاندان اور1451 میں لودھی خاندان کے قبضے میں رہا ۔ ظہیرالدین بابر نے 1526 میں ابراہیم لودھی کو شکست دی اور برصغیر میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی ۔

لاہور شہر اپنے اندر ماضی کے حکمرانوں کے عروج و زوال کو سموئے ہوئے ہے۔ ہر دور میں یہ شہر حکمران وقت کی توجہ اور حکومت کا مرکز رہا ہے اور صوبے کا صدر مقام رہا ہے ۔ لاہور کی بربادی اور آباد کاری کی داستان جہاں بہت طویل ہے وہیں سبق آموز بھی ہے۔ بیرونی حملہ آوروں نے یہاں کے باسیوں کولوٹا اور اجاڑا ۔ بالآخر مغلیہ دور جب آیا تو انہوں نے انہی حملوں سے بچانے اور اس کو خوبصورت بنانے کا فیصلہ کیا، یوں لاہور کے گرد پہلی بار نہ صرف مضبوط بلند فصیل قائم کی گئی جس کی بلندی30 فٹ تھی جو سکھوں کے دور میں کم ہوکر15,20 فٹ کی رہ گئی تھی ۔ اس کے داخلی اور خارجی راستوں کے لئے 12دروازے بھی تعمیر کئے گئے تھے، 1 چھوٹا دروازہ بھی الگ تعمیر کیا گیا تھا، یہ سب نقش وکنندہ کاری کے سبب خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے ۔ ان دروازوں کو باقاعدہ نام دیئے گئے تھے۔ ان میں 1دہلی دروازہ، 2 اکبری دروازہ، 3 موتی دروازہ، 4شاہ عالمی دروازہ، 5لوہاری دروازہ، 6موری دروازہ، 7بھاٹی دروازہ، 8ٹکسالی دروازہ، 9روشنائی دروازہ، 10مستی دروازہ، 11کشمیری دروازہ، 12خضری دروازہ اور 13یکی دروازہ شامل ہیں۔ دہلی دروازہ اس دور میں سب سے زیادہ مصروف گزرگاہ ہوا کرتی تھی، کیونکہ اس کا منہ دہلی کی طرف تھا اسی لیے شاہی قافلے اور سواریاں اسی راستے سے لاہور میں داخل ہوا کرتی تھیں۔

اب بہت سے دروازے تجاوزات کی زد میں آکر اپنا وجود کھو چکے ہیں لیکن چند دروازے آج بھی موجود ہیں اور عظیم عہد رفتہ کی یاد دلاتے ہیں ۔ پرانے لاہور کو راستہ انہی دروازوں سے ہو کر جاتا تھا اور یہ دروازے سرشام ہی بند کر دیئے جاتے ہیں ۔ اندر تنگ گلیوں اور بازاروں والا حقیقی لاہور بستا تھا ۔ آج کل اسی پرانے لاہور کو از سر نو زندہ کرنے کی سرکاری کوششیں ہو رہی ہیں۔ ’’والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی‘‘ کے نام کا ایک اداراہ اندرون لاہور کی صدیوں پرانی رونقیں بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ’’پرانے لاہور‘‘ کو زندہ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہے، چار دیواری کے اندر موجود تنگ گلیوں ، پرانے قدیم طرز کے مکانوں اور حویلیوں پر مشتمل لاہور کی تزئین و آرائش ہو نے کے بعد ایک میلہ سجایا گیا ہے۔ جس میں قدیم لاہور کی تنگ گلیوں کی نمائش کی گئی ہے اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے پرانے لاہور کی قدیم شان و شوکت کو دیکھا اور انتہائی پسند کیا ہے اور اب لاہور سیاحت کے لئے جانے والوں کے لئے نئے سیاحتی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Anarkali Bazar, Lahore

    Anarkali Bazaar is the oldest bazar in South Asia which is at about hundred years old. It is located on Mall Road, Lahore. It is named after the famous Mughal character Anarkali. Lahore's old Anarkali Bazaar came into being first, while Baronak and the new Bazaar came into being later. There is also the mausoleum of Qutbuddin Aibak in the side street of Anarkali Bazaar while there was a bookshop of famous poet Ehsan Danish near it.     Prior to the partition, Hindu merchants controlled the city's markets and institutions, including Anarkali Bazaar. There were small shops of Muslim merchants. The shoe business was monopolized by Muslims. However, Muslim traders were not as few as we are told. In Anarkali Bazaar, Muslim Rasa had large properties. Residents of the city used to cross the circular road through the iron gate and enter Anarkali, while those coming from other areas including Rajgarh, Krishna Nagar, Ichhra, Mozang, Model Town and Mall Road, Kachehri Road ...

Tomb of Jani Khan

     The Baghbanpura area of ​​Lahore was named after the abundance of gardens. There was a time when many beautiful small and big gardens could be seen here but over time they disappeared and now only a few gardens like Baghi Sethanwali (Mahabat Khan Bagh) and Shalamar Bagh are left.   In addition to the gardens, there are many other historical buildings scattered in the area, one of which will be mentioned in the next section.  This is the tomb of Jani Khan, built during the Mughal period, which is located on the GT Road in the street next to the Baghbanpura post office, within four walls.  Historians, like some other tombs in Lahore, differ on this tomb.  According to some old historians, Jani Khan was the son of Nawab Qamar-ud-Din Khan and the brother of Nawab Moinul Mulk alias Manu, a minister of Mughal period.  But some people also call him Nawab Moinul Mulk's father-in-law. Some even say that this tomb belongs to Nawab Sadiq Khan....

Lahore, Tomb of Mughal Emperor Jahangir

          Jahangir was born in 1569 at Fatehpur Sikri. Akbar named him Muhammad Sultan Saleem after Sheikh Saleem Chishti. He made great arrangements for his education and training and appointed Abdul Rahim Khan Khanan as his mentor. Due to his natural intelligence, Jahangir soon mastered Arabic, Persian, Turkish and Sanskrit and mastered history, geography, botany, music and painting. He was particularly interested in poetry and painting. At the age of 15, he got married for the first time in 1575 to Manbai alias Shah Begum, daughter of Raja Bhagwan Das Wali Amber. Regarding the number of wives of Jahangir, historians believe that the number of married wives was not less than twenty. From an early age, Shahzada Saleem was a lover of luxury and drinking. And this was a source of trouble for Akbar. When Akbar set out on an expedition to the Deccan in 1591, he appointed Saleem viceroy. But when Saleem reached Allahabad, he raised the flag of rebellion and sei...